سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے کے دور کے سلطان عبدالحمید کے خلاف بغاوت پر پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ
سلطان عبدالحمید دوئم کا انتقال 10 فروری 1918 میں ہوا۔ تاریخ بنیادی طور پر ماضی نہیں ہوتی بلکہ یہ مستقبل پر روشنی ڈالنے والا بنیادی ترین حوالہ ہوتی ہے۔ اس بنا پر تاریخ کو ایک تعریفی یا پھر طنزیہ موضوع کے طور پر نہیں بلکہ مستقبل کے حوالے سے عبرت کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ جیسا کہ نامور ترک شاعر مہمت عاکف نے کہا تھا کہ وہ لوگ "تاریخ" کی تشریح 'تکرار' کے طور پر کرتے ہیں۔
انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا اس موضوع کے حوالے سے تجزیہ۔ ۔
اگرعبرت محسوس کی جاتی تو کیا یہ 'تکرار ' ہوتی؟ اس اعتبار سے اگر غور کیا جائے تو سلطان عبدالحمید اور ان کا دور آج کے مفہوم میں خدمات فراہم کرے گا، شاید یہ ہمارے ماضی کا اہم ترین دور ہے۔ بلا شبہہ اس دور کے ترقیاتی منصوبے، تعمیر کردہ مکتب، سٹرکیں، دور دراز کے علاقوں کے ساتھ قائم کردہ تعلقات، عالمی متوازن سیاست کی طرح قابل ِ غور متعدد معاملات موجود ہیں۔ میں ان میں سے چند کا حوالہ دینے کے بعد بنیادی طور پر اس دور میں ہمیں پیش آنے والے مسائل کے عصر ِ حاضر پر اثرات پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
سلطان عبدالحمید کے تمام تر مقاصد کو شیرازہ بکھرنے کے قریب ہونے والی عظیم سلطنت کو اس دور کی سامراجی قوتوں کے درمیان متوازن سیاست کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑا رکھنے کی کوششوں کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی پوری زندگی"بیمار شخص" کے طور پر دیکھی جانے والی دولت عثمانیہ کو اپنے پاؤں پر کھڑا رکھنے کے لیے دوسرے ملکوں کے سربراہان اور ان اداکاروں کے ساتھ تعاون کے ماحول میں ملکی اداکاروں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے بیتی۔ اس بنا پر انہیں کئی تہمتوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو خود رانی کا موردِ الزام ٹہرانے والی اتحاد و ترقی کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد کہیں زیادہ دباؤ پر مبنی پالیسیوں پر مہر ثبت کرنے سے ہر کس آگاہ ہے۔ ان کے دور میں برطانیہ کی مدد سے سیونسٹ یہودیوں کے عثمانی سر زمین پر ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کی چالیں چلنے کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے۔
کاتب چیلیبی ریاستوں کو ابنِ خالدون جیسے انسانوں کی ساخت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہ بھی بچپن، نوجوانی اور بڑھاپے کے دور سے گزریں گی۔ کاتب چیلیبی نے کہا تھا کہ دولتِ عثمانیہ فراوانی، نوجوانی اور بلوغت کے ادوار کو ایک طویل مدت قبل بسر کرنے کے بعد اب بزرگی کے دور سے گزر رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ معالجین حضرات مریض کو صحتیاب کرتے ہوئے اس کی عمر دراز کرتے ہیں اسی طرح ریاستیں بھی دانا اور تجربہ کار منتظمین کی بدولت نا گزیر انجام کے سلسلے میں تاخیری لانے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ لہذا انہوں نے کہا تھا کہ دولتِ عثمانیہ کی باگ ڈور کو ایک فراستِ عقل شخص کے ہاتھ میں پکڑایا جانا چاہیے۔
جیسا کہ کاتب چیلیبی نے اشارہ دیا تھا ، سلطان عبدالحمید کو ایک دانش مند اور فراستِ عقل شخصیت کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تا ہم اُس وقت کی روح تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی تھی، سلطنت کا دور اپنے انجام کے قریب تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں صفحہ ہستی سے مٹنے والی محض سلطنتِ عثمانیہ ہی نہیں تھی۔ اسی دور میں شہنشاہتِ روس اور آسڑیا۔ ہنگری شہنشاہت بھی پہلی جنگِ عظیم کے ساتھ تاریخ کے صفحے سے مِٹی تھی۔ جبکہ اُس دور کی طاقتور ترین شہنشاہی سطنت برطانیہ کے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی اپنی معیاد پوری کرنے کا کہا جا سکتا ہے۔
دورِ حاضر پر اثرات
اس حوالے سے شاید اولین طور پر بیان کرنے کی ضرورت ہونے والے سلطان عبدالحمید کے ان ایام میں عالمی سطح پرقائم کردہ باہمی تعلقات اور مسلم اُمہ میں دلچسپی کے معاملات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان سے لیکر چین تک، افریقہ سے لیکر مشرقِ وُسطی ٰ اور یورپ تک کے متعدد مقامات پر عبدالحمید سے تعلق رکھنے والے کسی شہہ پارے یا پھر تعلق کا مشاہدہ کرنا ممکن ہے۔ عثمانی سلاطین میں شاید سلطان عبدالحمید، حکومت کے عدم وسائل کے باوجود وسیع ترین رقبے پر سب سے زیادہ شہہ کار ورثے میں چھوڑنے والے ایک حکمران ہیں۔
سلطان عبدالحمید عروج کے دور کے حکمران نہ ہونے کی وجہ سے مملکت کے تحفظ/ نجات کی جدوجہد میں مصروف رہے ، لہذا ان کے عہد کے آج پر اثرات زیادہ تر انہی کوششوں اور جدوجہد کے عکاس ہیں۔
عبدالحمید کو ایک بغاوت کے ذریعے تحت سے ہٹائے جانے کو ، نتائج کے اعتبار سے اس دن تک ہونے والی اور کامیابی سے ہمکنار ہونے والی بغاوتوں میں کامیاب ترین بغاوت کی نظر سے دیکھا جانا ممکن ہے۔ بغاوت کے اصل معماروں میں سے اتحادیوں کی بغاوت کی ریت، حریت اور ایتلاف کے ماحول میں اپنا وجود پانے والے میندرس، اوزال اور ایردوان کے خطوط پر جاری حصول ِ جمہوریت کی جدوجہد جمہوریہ ترکی کی تاریخ بھر کے دوران جاری رہی ہے۔ آک پارٹی کے دور میں اٹھائے گئے جمہوری و سول اقدامات کی بدولت ترکی میں اتالیفی/ بغاوتی ماحول میں قدرے کمزوری آئی ہے۔ صدارتی نظام کے نفاذ کی بدولت ترکی میں بغاوت کی ریت شاید اپنی تاریخ کی کمزور ترین سطح پر ہے۔
عبدالحمید کو تحت سے اتارنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات ، خاصکر اتحادیوں کی کاروائیوں نے ، قوم کے بے خبر ہونے روشن خیال شخصیات، ذرائع ابلاغ، بیوروکریسی اور فوج کی طرح کے ملکی عناصر کے بیرونی طاقتوں کے ساتھ قریبی تعاون کر سکنے، اور اس کے نتیجے میں قوم و مملکت کے لیے ایک کٹھن دور بن سکنے کو ورثے میں چھوڑا تھا۔ میندرس، اوزال، ایربکان اور ایردوان کو پیش آنے والے واقعات ماضی میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے انہی سلسلوں کی ایک کڑی ہیں۔
سلطان عبدالحمید کو اندرون و بیرونِ ملک ایک لحاظ سے شیطانی شخصیت کا تاثر دیتے ہوئے برائیوں کی جڑ کے طور پر دکھایا گیا اور اس شخصیت کو راستے سے ہٹانے سے تمام تر مسائل کو خود ساختہ طور پر ختم ہونے کی سوچ اور خیال کو تخلیق دی گئی۔ یہ سب کو علم ہے کہ نفرت آمیز بیانات کےذریعے کسی ایک شخص کو تمام تر مسائل کی جڑ کے طور پر پیش کرنے کا تاثر میندرس، اوزال اور ایردوان کے ادوار میں بھی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
پیشمانیاں ، گستاخیاں
عبدالحمید کو تحت سے اُتارے جانے کے بعد بعض روش خیال شخصیات نے اپنی پیشمانیوں کا اظہار بھی کیا ہے۔ ان میں سے ایک نمایاں ترین شاعر رضا توفیق کا تحریر کردہ"سلطان عبدالحمید خان کی روحانیت سے استمداد " نامی شعر ہے۔ یہاں پر محض اس کے چار مصرعے ہی پیش کر رہاہوں جو کہ شاعر کی پیشمانی کا واضح طور پر اعتراف ہیں۔
"جب تاریخ تمھارا نام لے گی
تمھیں حق بجانب ٹہرائے گی اے عظیم سلطان
ہم ہی تھے جنہوں نے بے شرمی سے تہمہت لگائی
صدی کے با اثر ترین سیاستدان بادشاہ پر"
البتہ اس پیشمانی کے عبدالحمید کے مخالف عثمانی روشن خیال شخصیات اور بیورو کریٹس میں کافی عام ہونے کا کہنا ایک مشکل کام ہے۔ جیسا کہ کمال طاہر کا کہنا ہے کہ یہ عالم فاضل شخصیات و بیوروکریٹس مغرب پسندی کی دوڑ میں دولتِ عثمانیہ کی نجات کی خاطر شامل ہوئے تھے۔ دولت عثمانیہ کی زوال پذیری کا اندازہ کرنے کے باوجود یہ اس راستے سے واپس نہ لوٹے اور ان کے خلاف صدا بند کرنے والوں کو تنگ نظری کا موردِ الزام ٹہرایا۔ کمال طاہر کے ہی مطابق "ایک لحاظ سے یہ لوگ اس طریقے سے خیانت کرنے تک لڑھکتے رہے۔ اگر اس دریچے سے دیکھا جائے تو مغرب پسند نظریات کے حامل عثمانی خواندہ ، روشن خیال شخصیات اور بیورو کریٹس نے 1918 کے زوال کا اپنے مقدر کے طور پر خیر مقدم کیا۔ یا پھر انہوں نے حق بجانب ہونے کی بے باکی کو اپنایا۔
کیا کمال طاہر کے یہ الفاظ جمہوریہ ترکی کی بعض روشن خیال شخصیات اور بیوروکریٹس پر بھی لاگو نہیں ہوتے؟ کیا ان افراد کو شہید وزیر اعظم عدنان میندرس کے پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کے ساتھ نکتہ پذیر ہونے والے ایک سلسلے ، ترگت اوزال کی موت کہ میرے نزدیک قتل کے بعد ترکی کے سر پر پڑنے والے مسائل کی بنا پر پیشمانی ہوئی ہو گی؟ اگر ایردوان کے خلاف، بعض مغربی نواز پراپیگنڈے کو کسی طوطے کی طرح بار بار دہرانے والے ، کوئی دوسرا ایجنڈہ عقل و گمان میں بھی نہ ہونے والے ان نظریات کے حامل عالم فاضل کیا ترکی کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کیے جانے پر شرمندگی محسوس نہیں کریں گے؟ کیا یہ اپنے کیے کا سامنا کرنے کی جسارت نہ رکھنے کے باعث دوبارہ حق بجانب ہونے کے درپے رہیں گے؟
Wow so beautiful
ReplyDelete